ایک واقعہ

ایک واقعہ

سب ہمارے عمل اور نیت کا نتیجہ ہوتا ہےجسے ہم قسمت کہتے ہیں۔ اس دن کسی وجہ سے تا خیر ہو گئی تھی اور مغرب کی اذان ہو چکی تھی۔ وہ اسی راستے سے آ رہا تھا جس راستے سے سبھی لوگ نماز کے لیے جا رہے تھے۔ اس میں سے ایک شخص نے نماز کے لیے کہا بھی تھا لیکن اس نے عذر پیش کر دیا۔

اس کے بر خلاف اس کے دل میں یہ بات چل رہی تھی کہ نماز کے لیے نہ جاؤں تو رب کائنات ناراض ہو جاۓ گا اور اگر چلا جاؤں تو اسکول دیر سے پہنچنے پر ڈائریکٹر کی ڈانت پڑے گی۔ اسکول رات کو چلتا تھا جو وہاں سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع تھا۔ اسکول پہنچنے کو صرف 20 منٹ رہ  گئے تھے اسےسواری بدل بدل کر جانا تھا۔ اس طرح اسکول پہنچنے میں تا خیر ہونا تقریباً طے تھا۔

اس بات کو لے کر غورو فکر کر رہا تھا کہ کس کا فرمان بجا لاؤں ،رب کا یا اسکول والے سرکا۔ اس کا نفس اسے ورغلانے لگا کہ نماز تو اکثر چھوٹ ہی جاتی ہے روز کی طرح قضا پڑھ لوں گا۔ پر اسکول دیر سے پہنچنے پر ڈانٹ کی ذِلت برداشت نہ ہو گی اور دنیا کی ہر ذِمّہ داری بھی تو عبادت ہے اسے ایمانداری کے ساتھ پورا کرنا اور کمائی کے پیسے کو جائز کرنا بھی تو اہم فرمان میں سے ہے۔ یہی سوچتے ہوئے نماز ترک کرنے کا  ارادہ کر لیا اور نماز کی دعوت دینے والے بھائی سے بعد میں پڑھ لوں گا کہہ دیا۔

دل ہی دل میں خود کلامی کرتے ہوئے اسکول کی طرف چلا اور کہا۔۔۔

یا رب! کیا ہی اچھا ہوتا کہ ہم تیری  عبادت کرتے اور من وسلویٰ کھاتے۔ پھر کیوں ہمیں اس رِزق کے جال میں پھنسا دیا؟ کہ ہم اس قدر مصروف  ہوگئےہیں کہ تجھے وقت نہیں دے پاتے خواہش رکھتے ہوئے بھی تیری عبادت نہیں کر پاتے۔ کیسا امتحان ہے تیرا۔؟

رب نے ممکن ہے اس کی بات بغور سنی ہوگی اور اس کو نماز ادا کرنے کا موقع دیا۔ ابھی اسکول کی طرف کچھ ہی قدم چلا تھا کہ خدا کے نظام نے اپنی کروٹیں لینا شروع کر دیا۔ اچانک چھینک آنے لگی جو برداست کے باہر تھی۔ کچھ دیر سائکل روک کر سوچنے لگا کہ چھینک سے نجات مل جائے پر ایسا نہیں ہوا بلکہ ناک بھی بہنے لگی۔ اب اس کے تمام بہانے ختم ہوئے اور موبائل نکال کر ڈائریکٹر  صاحب سے کہا کہ اچانک طبیعت نا ساز ہونے کے سبب میں راستہ سے واپس لوٹ رہا ہوں۔ لہٰذا اسکول نہ  جانے کی اجازت بڑی آسانی  سے مل گئی جس کا اسے گمان بھی نہ تھا۔ خدا تو  اس کے ارادوں کو شیطانی وسوسوں میں مبتلا کر کے اس کی آزمائش لے رہا تھا کہ وہ کیا فیصلہ کرتا ہے۔ 

اس نے سوچا کہ جب قسمت میں نماز پڑھنا لکھا تھا تو پھر اسے کوئی نہ روک سکا ، نہ اس کا اسکول جانا اور نہ ہی وقّتی بیماری۔ 





Want to read more? hit the link below-

Nasihatein

Ek khwab


Blogs:

Rashid's English Blog

Rashid's Urdu Blog

Man works throughout his life for being accepted in the society but in the last hours of his life he wants God to accept him.

...by Rashid Richmind